voice Of Conscience
#selfactualization
#criticalthinking
#thoughts
.jpeg?alt=media&token=d931afc4-e467-44a5-8fa0-c182d5b450d9)
ہم اس بحث میں الجھے ہیں کہ خاتون کی قمیض پر جو
arabic callographic design تھا اس پہ حلوہ لکھا تھا اس کے نقطے تھے کہ نہیں تھے دوسری طرف اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے amrican فضائیہ کا ایک شخص خود کو اگ لگاتا ہے اس سے پہلے وہ social networking کی ایک website ہے twich اس پر live stream کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مزید بچوں پر بمباری کا حصہ نہیں بن سکتا میں میں مزید یہ تباہی نہیں لا سکتا اور یہ میری لائی ہوئی مزید تباہی جو ہے میرے اعصاب اس قدر تباہ کر رہی ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤں میرا مر جانا اس سے کئی گنا زیادہ بہتر ہے میں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا اور اس کے بعد American secret agencies نے اس شخص کو نہ صرف rescue کیا بلکہ ریسکیو کرنے کے بعد اس شخص کو وہاں سے نکال کر غائب کر دیا وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص 70 80 فیصد تک جلس گیا یہ زندہ ہے یا مر گیا اس کی کوئی میڈیا پر اطلاع نہیں لیکن اس کا ضمیر ضرور جاگا اور اس نے اگ لگاتے ہوئے یہ نعرے لگائے free palestenin ٹیم فلسطین کو ازاد کر دو میں تاریخ میں اب تک کسی بھی جنگ میں including 1st world war اور جنگ عظیم دوئم جتنی تیزی سے بچوں کی ہلاکت خیزی کی گئی ہے اس کا record اج تک کرہ ارض پر موجود نہیں ہے
اگر ہم بار بار ان پہ آواز اٹھائیں گےنہیں تو ہم وہ بھولتے جا رہے ہیں اس ٹائم rafah border پہ بڑی بری قسم کی bombarment کی جا رہی ہے وہاں درجنوں عورتیں بچے جوان خیموں میں مقیم ہیں ان خیموں پر بمباری کی جا رہی ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں اب ہم نے سوال یہ کرنا ہے کہ کیا ہمارے ضمیر بطور قوم اس امریکن فضائیہ کے اہلکار سے بھی زیادہ مردہ ہو چکے ہیں ہم کیا اس سے بھی زیادہ بے حس ہو چکے ہیں ہماری بحثیں قمیض پر لکھے حلوے تک محدود ہو جانی چاہیے یا ہم نے معاشرے میں کوئی possitive role بھی ادا کرنا ہے اگر ہم نے یہ نہ سوچا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم پر بھی بمباری ہوگی ہم بھی تباہی کا شاخسانہ ہوں گے اور ہمیں تباہ کر دیا جائے گا
Comments
Post a Comment